اجو دھیا ، 21؍مارچ (ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا )بابری مسجد-رام جنم بھومی مسئلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے ثالثی کی پہل کا ایودھیا کے دونوں فریقوں نے خیر مقدم کیا ہے، الہ آباد میں بھی اکھاڑہ پریشد نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ایودھیا میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر نرموہی اکھاڑا نے پریشد نے دعوی کیا کہ ایودھیا تو بھگون رام کی جائے پیدائش ہے، اس پر مسلمان اپنا دعوی چھوڑ دیں۔ادھر بابری مسجد کے مدعی حاجی محبوب نے کہاکہ ہم تو کافی پہلے سے چاہ رہے تھے کہ دونوں فریق اس معاملے میں بیٹھ کر مذاکرات کریں اور اس معاملے کا فیصلہ ہو۔رام جنم بھومی -بابری مسجد تنازعہ عقیدہ سے جڑا مسئلہ ہے اور اس تنازعہ کا حل دونوں فریقوں کی باہمی بات چیت سے ہونا چاہیے ۔سپریم کورٹ کی اس تجویز کا اجو دھیا میں استقبال ہوا ہے۔دہائیوں سے مندر- مسجد تنازعہ کے پرامن حل کی مہم چلا رہے ہنومان گڑھی سے منسلک بڑے مہنت گیان داس نے کہاکہ باہمی رضامندی مسئلے کے حل کا بہترین طریقہ ہے اور عدالت کے تازہ موقف سے نہ صرف اس طرح کوشش کوقانون حیثیت ملی ہے بلکہ اس کی ایمانداری پر بھی کسی کو شک نہیں ہوگا۔نسلوں سے بابری مسجد کے فریق اور انجمن محافظ مقابر و مساجد کے علاقائی صدر حاجی محبوب نے کہا کہ یہ بہت اچھی بات ہے، ہماری کوشش سے اگر ملک میں امن و چین کو یقینی بنایا جاسکے ،تو یہ ہمارے لیے خوشی کی بات ہوگی۔بات چیت سے مسئلہ حل ہونا مشکل بھی نہیں ہے۔بھاسکرداس جیسے کچھ لوگ آئیں ،جو رام جنم بھومی کے فریق ہیں اورسنجیدہ ہیں، ایسی کوشش سے ان لوگوں کو دور رکھنا ہو گا ، جو اپنی دکان چلا کر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرتے ہیں۔صدیوں سے رام جنم بھومی کی جانشینی برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ویراگی سنتوں کے ادارے نرموہی اکھاڑا کے سرپنچ مہنت بھاسکرداس کے مطابق ،سب چاہتے ہیں کہ سمجھوتے سے مسئلے کا حل ہو اور یہ خوش قسمتی کی بات ہے کہ عدالت کے تازہ موقف کے بعد سے سمجھوتے کی جو کوشش ہو گی، اس پر سیاست کا رنگ نہیں ہوگا اور اس کی ایمانداری پر کہیں زیادہ لوگ یقین کرسکیں گے۔
بابری مسجد کے ایک اور فریق اور بابری مسجد کے مرحوم مدعی ہاشم انصاری کے بیٹے محمد اقبال نے بھی سپریم کورٹ کے موقف کا خیر مقدم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ تنازعہ ختم ہونا چاہیے اور اس کے لیے بات چیت بہتر راستہ ہے۔انہوں نے یاد بھی دلایا کہ ان کے والد ہنومان گڑھی کے بڑے مہنت گیان داس کے ساتھ مل کر سمجھوتے سے مسئلے کے حل کی کوشش بھی کرتے رہے ہیں۔مشہور تیواری مندر کے مہنت اور صلح وسمجھوتے کی وراثت کے نمائندہ گریش پتی ترپاٹھی کہتے ہیں کہ کورٹ کے تازہ موقف سے مندر -مسجد تنازعہ کے حل کا سب سے زیادہ مناسب متبادل کھلنے کے ساتھ ملک کی مشترکہ میراث بلند ہونے کا امکان پیدا ہوا ہے۔ایودھیا مسلم ویلفیئر سوسائٹی کے صدر صادق علی بابو بھائی نے کہاکہ ہم لوگ جسٹس پلوک باسو کی قیادت میں کئی دہائیوں سے جس کوشش کو رنگ دے رہے تھے، عدالت کا رخ اس کو قانونی حیثیت فراہم کرنے والا ہے اور اس کوشش کو انجام تک پہنچا کر پوری دنیا کے سامنے ہندوستان قومی اتحاد اور بھائی چارہ کی مثال پیش کر سکتا ہے۔وی ایچ پی کے صوبائی میڈیا انچارج شرد شرما کے مطابق ،ہندو فریق نے مذاکرات کا ہمیشہ خیر مقدم کیا ہے۔انہوں نے اپنے سابقہ موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مسئلے کا بہترین حل سومناتھ کی طرز پر قانون منظور کرا کر مندر کی تعمیر کرنا ہے۔الہ آباد میں اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد کے صدر مہنت نریندر گری نے ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کے تبصرے کا خیر مقدم کیاہے ۔مہنت نریندر گری نے کہا کے تنازعہ کا حل باہمی رضامندی سے ہی ہو سکتا ہے،وہ پہلے سے پہل کر بھی رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ بابری مسجد کے مدعی مرحوم ہاشم انصاری سے کئی بار بات چیت کرکے اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے پر کوئی ایک فریق دکھی ہوگا، جو ملک و معاشرے کے مفاد میں نہیں ہو گا۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ دونوں فریقوں کے درمیان ثالثی کرنے اور آپس میں بات چیت کروانے کی پہل خود آگے بڑھائیں گے۔اگر سپریم کورٹ کے جج ثالثی کرانے کی پہل کرتے ہیں تو وہ بھی اس میں ان کا ساتھ دیں گے۔